Tuesday, September 26, 2017

احتساب عدالت میں پیشی کے بعد نوازشریف کی دھواں دھار پریس کانفرنس

سب جانتے ہیں اہلیہ کی بیماری کے باعث ہنگامی طور پر لندن جانا پڑا، بیماری کی نوعیت آپ جانتے ہیں۔ اہلیہ کیلئے دعائیں کرنے پر عوام کا شکر گزار ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ وہم و گمان میں بی نہ تھا کہ ضرورت سے ایک دن زائد بھی ملک سے باہر رہوں گا نہ ہی کسی مرحلے پر یہ موضوع زیر بحث آیا، جانے کے ساتھ ہی واپسی طے ہو گئی تھی ،مگر مخالفین نے طرح طرح کی کہانیاں تراشیں، اس سے قبل بھی حالکات کی سنگینی کا بارہا سامنا کیا۔ یہ میری ذات یا خاندان کا نہیں پاکستان کا مسئلہ ہے جنہیں تنہا نہیں چھوڑسکتا۔
نوازشریف نے کہا کہ دھمکیاں نظر انداز کرتے ہوئے آمریت کے دور میں بھی اسی ماہ ستمبر میں پی آئی اے کی اسی پرواز پی کے 786 سے وطن واپس آیا تھا مگر ائر پورٹ سے باہر ہی نہ آنے دیا گیا اور پھر ملک بدر کردیا گیا۔ عدالت کی اس کھلی توہین کا مقدمہ آج بھی کسی الماری میں پڑا ہو گا۔ آئین اور قانون سے فرار ہمارا طریقہ نہیں ، اس پر یقینب رکھتے ہیں اور اسی لیے قربانیاں دیں۔ ڈکٹٰیٹرکے سامنھے سرجھکانے سے انکارکرتے ہوئے ہتھکڑیاں پہنیں ، نااہلی برداشت کی ہائی جیکر ہونے کے جرم میں لمبی قید کی سزا پائی لیکن آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ قانون اور انصاف کےاس تمام عمل سے پہلے بھی گزر ہوں فرق یہ ہے کہ تب آمریت تھی آج جمہوری دور ہے۔ مجھے دو وکیلوں کا حق حاصل تھا آج اس سے بھی محروم کر دیا گیا۔
نواز شریف نے عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا پٹیشن کو فضول اور ناکارہ قرار دینے والی عدالت نے اسی کی سماعت شروع کردی۔ پراسرار طریقے سے جے آئی ٹٰی بنائی ۔ کبھی 5 کبھی 3 ججز کے ساتھ فیصلے بھی سنا دیے ۔ نیب کو حکم دیا کہ سارے ضابطے توڑ کربراہ راست ریفرنس دائرکرو۔ اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول؛ بھی سنبھال لیا۔ احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی۔ ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی۔ نوا زشریف نے سوال اٹھایا کہ کیا انصاف ایسا ہوتا ہے؟ کیا اسے قانون کی پاسداری کہتے ہیں؟کیا آرٹیکل 10 اے یہی کہتا ہے؟ کیا یہی فیئر ٹرائل ہے؟ وکلاء کنونشن میں 12 سوالات اٹھائے تھے، ایک ماہ سے زائد گزر گیا جواب نہیں آیا اور نہ آسکتا ہے کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلا کیس ہے جس میں عدل اور قانون کا پورا وزن درخواست گزارکے پلڑے میں ڈال دیا گیا۔ دفاع کرنے والے کے آئینی حقوق سلب کرلیے گئے۔ 24سال پہلے سیاسی انتقام کی کوکھ سے جنم لینے والے مقدمات ہیں ۔ اس وقت بھی رتی بھرالزام ثابت نہیں ہوا، آج پھردور آمریت کے پٹے ہوئے مقدمات اسی مقاصد کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں انصاف کے تقاضے پامال ہو رہے ہیں لیکن کارروائی میں شامل رہے۔ آخر میں فیصلہ آیا کہ ایک پائی کی کرپشن رشت، بدعنوانی۔ کک بیک ثابت نہیں ہوا۔
نواز شریف نے کہا کہ مجھے نااہل کرنا ہی تھا اس لیے اقامہ کی آڑ لی گئی۔ یہ اعتراف بھی کرنے نہیں دیا گیا کہ پاناما میں سزا نہیں دی جا سکتی اس لیے اقامہ کا بہانہ نااہلی کی بنیاد بنا لیا گیا۔ لوگوں کو بتا دیتے کہ اقامہ کا سہارا لے رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد بنا تاخیر عہدے سے سبکدوش ہو گیا۔ لیکن سمجھ بوجھ رکھنے والے حیران ہیں۔

Fariha Taj

0 comments: