دوحہ (مانیٹرنگ ڈیسک) قطر کی کل آبادی 26 لاکھ ہے مگر اس میں سے 90 فیصد غیر ملکی محنت کش ہیں جن میں پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان محنت کشوں کے ساتھ کیسا دردناک ماجرا پیش آرہا ہے اس کا اندازہ دی انڈیپینڈنٹ کی ایک چشم کشا رپورٹ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ میں ایک عام محنت کش کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ غریب جنوبی ایشیائی ممالک کے لوگوں کو 40 سے 50 ہزار روپے کی نوکری کا لالچ دے کر قطر لیجایا جاتا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ اصل میں ان کی تنخواہ 20 سے 25 ہزار ہوگی، اور اگرچہ انہیں بتایاجاتا ہے کہ ان کی ریکروٹمنٹ کے اخراجات 20 ہزار روپے ہوں گے لیکن وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ اخراجات دو لاکھ روپے سے بھی زائد ہیں۔ ان مزدوروں کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا جاتا ہے اور یوں ان کیلئے واپسی کا بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ ان بے کسوں کی بدقسمتی کا اندازہ کیجئے کہ عموماً جب یہ پہلے دن ملازمت پر پہنچتے ہیں تو اس سے قبل ہی اپنی تقریباً دو سال کی کمائی کے برابر رقم کے مقروض ہوچکے ہوتے ہیں۔
’یکم جنوری سے کسی بھی اس غیر ملکی کو سعودی عرب میں نوکری نہیں ملے گی جو۔۔۔‘ سعودی حکومت نے اب تک کا سب سے خوفناک اعلان کردیا، غیر ملکی ورکروں کے پیروں تلے زمین نکال دی
اس کے بعد ملازمت کا آغاز ہوتا ہے تو سارا سارا دن دھوپ میں مشقت کرنا پڑتی ہے اوریہ کام ہفتے میں چھ دن اور ہر روز تقریباً 12 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اس تمام تکلیف اور مشقت کے بعد جن محنت کشوں کو باقاعدگی سے تنخواہ مل جاتی ہے وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کیونکہ یہاں ایسے غیر ملکی محنت کشوں کی بھی کمی نہیں جنہیں دو، تین یا حتیٰ کہ چھ ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی۔ اگر یہ محنت کش کبھی غلطی سے کسی شاپنگ سنٹر کی جانب جانکلیں تو سکیورٹی گارڈ انہیں بتاتے ہیں کہ وہ فیملی زون میں آگئے ہیں اور وہ فوراً وہاں سے بھگادیتے ہیں۔ سچ کہئیے تو درحقیقت یہ محنت کش ملازمت نہیں غلامی کررہے ہیں۔
اس رپورٹ میں ایک عام محنت کش کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ غریب جنوبی ایشیائی ممالک کے لوگوں کو 40 سے 50 ہزار روپے کی نوکری کا لالچ دے کر قطر لیجایا جاتا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ اصل میں ان کی تنخواہ 20 سے 25 ہزار ہوگی، اور اگرچہ انہیں بتایاجاتا ہے کہ ان کی ریکروٹمنٹ کے اخراجات 20 ہزار روپے ہوں گے لیکن وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ اخراجات دو لاکھ روپے سے بھی زائد ہیں۔ ان مزدوروں کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا جاتا ہے اور یوں ان کیلئے واپسی کا بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ ان بے کسوں کی بدقسمتی کا اندازہ کیجئے کہ عموماً جب یہ پہلے دن ملازمت پر پہنچتے ہیں تو اس سے قبل ہی اپنی تقریباً دو سال کی کمائی کے برابر رقم کے مقروض ہوچکے ہوتے ہیں۔
’یکم جنوری سے کسی بھی اس غیر ملکی کو سعودی عرب میں نوکری نہیں ملے گی جو۔۔۔‘ سعودی حکومت نے اب تک کا سب سے خوفناک اعلان کردیا، غیر ملکی ورکروں کے پیروں تلے زمین نکال دی
اس کے بعد ملازمت کا آغاز ہوتا ہے تو سارا سارا دن دھوپ میں مشقت کرنا پڑتی ہے اوریہ کام ہفتے میں چھ دن اور ہر روز تقریباً 12 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اس تمام تکلیف اور مشقت کے بعد جن محنت کشوں کو باقاعدگی سے تنخواہ مل جاتی ہے وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کیونکہ یہاں ایسے غیر ملکی محنت کشوں کی بھی کمی نہیں جنہیں دو، تین یا حتیٰ کہ چھ ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی۔ اگر یہ محنت کش کبھی غلطی سے کسی شاپنگ سنٹر کی جانب جانکلیں تو سکیورٹی گارڈ انہیں بتاتے ہیں کہ وہ فیملی زون میں آگئے ہیں اور وہ فوراً وہاں سے بھگادیتے ہیں۔ سچ کہئیے تو درحقیقت یہ محنت کش ملازمت نہیں غلامی کررہے ہیں۔
0 comments: