Sunday, January 7, 2018

عمران خان کی زندگی کے وہ تین روحانی لوگ جن کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے رہے ہیں

تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اگر تیسری شادی اپنی مرشد سے کرنا چاہتے ہیں تو اس پر انہیں لعن طعن کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ موجودہ نوجوان قیادت نے بھی اس موقع پر عمران خان پرطنز کرنے کا موقع ضائع نہیں کیا۔ عمران خان کی شادی جمائمہ سے ہو یا ریحام خان سے یا پھر بشریٰ بی بی سے ہونے کا امکان........ان کی ازدواجی زندگی کو انکے سیاسی مخالفین نے ناکام بنانے میں کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔عمران خان اس پر پورے وثوق اور تاسف سے کہتے رہے ہیں کہ جمائمہ خان سے انکی اچھی بھلی زندگی نبھ رہی تھی جسے سیاسی مخالفوں نے تباہ کیا ۔ریحام خان سے شادی کی ناکامی کے پیچھے بھی سیاسی بداعتمادی کا زہر گھولا گیا۔عمران خان کو سیاست دانوں کی اس گندی روش پر پر انتہائی دکھ رہاہے تاہم وہ یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ انہوں نے تو سیاسی مخالفین کے کئی کئی شادیاں کرنے کے معاملات کو نہیں اچھا لا،نہ اس پر تبصرے کئے ہیں حالانکہ بعض مقتدر سیاستدانوں نے شادیاں رچانے کے لئے جسطرح کے حربے استعمال کئے،انہیں عمران خان نے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ....ان کی نظرمیں شادی خالصتاً ذاتی مسئلہ ہے اور اسکو سیاست کے گند کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔
اب عمران خان تیسری شادی ایک ایسی روحانی عورت سے کرنے جارہے ہیں جو تصوف کی راہ پر گامزن ہیں ۔ مشہور ہے کہ عمران خان نے انکی بیعت کررکھی ہے،ان کےدیئے وظائف اور ایک ”مقدس انگوٹھی“ سے انکے مقدر میں روشنی پیدا ہوئی ہے۔اس خاتون سے روحانی فیض پانے کے بعد عمران خان ان سے شادی کے خواہش مند ہیں،خاتون کو تین ماہ پہلے انکے شوہر خاور مانیکا نے طلاق دے دی ہے ۔اس بحث سے قطع نظر کہ اس طلاق کے اسباب کیا تھے،میں اس بحث کی بجائے کسی اور جانب توجہ  دلانا چاہتا ہوں کہ عمران خان ایک ایسی روحانی عورت سے شادی کیوں کرنے جارہے ہیں جس کی عمر پچاس سے پچپن سال ہے ؟ 
اس پر بات کرنے سے پہلے یہ سن لیجئے کہ عمران خاننے اپنی رنگین زندگی کو تیاگنے کے بعد جب شوکت خانم ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تو پے درپے مخالفتوں اور مسائل کی وجہ سے ان کے اندر اسلام سے قربت پیدا ہوئی اور انہوں نے قرآن و احادیث کا مطالعہ کیا،تصوف کو پڑھا اور پھر انہیں یاد آیا کہ ان کی زندگی میں خلا ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب ” میں اور میرا پاکستان “ میں بھی اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ جب انکی والدہ حیات تھیں تو ان کی زندگی میں سکون تھا۔انہوں نے غور کیا کہ یہ انکی والدہ کی روحانی شفقت کا نتیجہ تھا۔ان کی والدہ اور خالہ ساہیوال کی ایک خاتون کی مرید تھیں،وہ باپردہ تھیں ،اس وقت عمران خان کی عمر دس سال تھی،عمران خاں کا کہنا ہے کہ جب وہ چودہ سال کے ہوئے تو انہیں پہلی بار شدید روحانی تجربے کا سامنا ہوا تھا۔اس دور میں وہ خدا اور مذہب کے بارے میں تشکیک کے شکار تھے۔والدہ کی روحانی مرشد پہلی اور آخری بار ان کے گھر آئیں اور عمران خان کے بارے انہوں نے بہت کچھ بتایا تھا،اسکے بعد والدہ نے عمران خان کو مذہبی تعلیم دلوانے کی کوشش کی۔ضیا الحق کے دور مٰن جب عمران خان نے کرکٹ کو خیر باد کہنے کا اعلان کیاتو روحانی رہ نمائی لینے کا خیال ان کے دل میں آیا اورایک دن روحانی کشش انہیں سرحد کے پاس واقع ایک گاوں میں لے گئی
جہاں انہوں نے بابا چالا سے ملاقات کی جنہوں نے عمران خان اور انکے ایک دوست صدیق بارے بہت سی ایسی باتیں بتا دیں کہ وہ دنگ رہ گئے۔ان واقعات کے بعد عمران خان کسی ایسے روحانی انسان کی تلاش میں رہے جو انکی حیرتوں کو کم کرسکے اور انکی روحانی تسکین کا سبب بن سکے۔
عمران خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی زندگی میں آسودگی کا سبب انکی والدہ کا روحانی ہاتھ تھا ۔والدہ کے انتقال کے بعد عمران خان کو اپنی ذات میں خلا محسوس ہوا۔وہ بے چین رہنے لگے۔اسلام اور تصوف کو سمجھتے ہوئے بھی وہ کسی ایسے انسان کی تلاش میں تھے جو ہر طرح کی ریاکاری سے پاک ہوکر اللہ سے جڑا ہوا ہو۔جو ظاہری اسلام سے زیادہ اسلام کی عملی خصوصیات کا نمونہ ہو۔بالاخر عمران خان کی ملاقات اپنے دوست کے ہاں میاں بشیر صاحب سے ہوگئی جو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت کے بعد پنشن پر گزربسر کرتے تھے ۔وہ ایک عام سے انسا ن تھے جو وضع قطع سے کسی صورت پیر نہیں لگتے تھے لیکن انکی ذات عمران خان پر روحانی سائبان بن کر تن گئی ۔عمران خان نے ان سے فیض پایا ،وظائف پڑھے،اسلام کو سیکھا۔اور ان کا روحانیت پر یقین بڑھتا چلا گیا ۔پہلی ملاقات میں ہی بشیر صاحب نے استخارہ کرکے عمران خان کو بتایا تھا کہ انکی روحانی طاقت انکی والدہ تھیں جو ہر رات آیات قرآنی پڑھ کر ان پر پھونکا کرتی تھیں جس کی وجہ سے وہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہے ہیں۔یہ میاں بشیر ہی تھے جنہوں نے تین سال تک عمران خان کے خیالات کو بدلااور انکے نظریات کا قبلہ درست کیا،انکے ہر سوال کا شافی جواب انہیں میاں بشیر سے ہی ملا اور وہ اسلام اور تصوف کے قائل ہوگئے،مذہب نے ان کے دل میں گھر کیا۔ میاں بشیر صاحب کی وفات کے بعد عمران خان پھر ایک سائبان سے محروم ہوگئے۔ ان کے اندر کسک اور تشنگی بڑھ گئی ۔عمراں خان نے اس دوران بہت سے روحانی لوگوں سے رابطے کئے ، لیکن وہ کسی سے اس حد تک متاثر نہیں ہوئے جتناانہیں بشری بی بی نے کیا تھا۔
بشریٰ بی بی روحانی طور بابا فرید گنج شکر ؒ سے وابستہ ہیں۔میرے ذاتی ذرائع کے مطابق عمران خان انہیں ملنے کے لئے اسلام آباد سے لاہور بائی ائیر آتے اور یہاں سے پاکپتن جاتے اور اسی روز واپس اسلام آباد پہنچ کر اگلے روز عدالتوں میں بھی پیش ہوتے تھے۔عمران خان پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر ؒ کے مزار پر حاضری دیتے اور تنہا بابا جی کے مرقد تجلیات پر بیٹھے رہتے۔عمران خان کے علاوہ بھی کئی ممتاز لوگ بشریٰ بی بی کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں لیکن عمران خان کی ذات بشریٰ بی بی کے لئے انتہائی اہم ہوگئی تھی۔جس روز عمران خان پاکپتن جاتے ،کوئی اور بشریٰ بی بی سے مبینہ طور پرنہیں مل سکتا تھا ۔ان حالات میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کو اپنی روحانی بے چینی دور کرنے کے لئے اب کے جو چوکھٹ ملی ،وہ اسی پر جبین نیاز جھکانا چاہتے ہیں۔اپنی مرشد سے شادی ان کے لئے روحانی چھتر بن سکتی ہے اور اسکی انہیں قوی امید بھی ہے۔اللہ کرے بشریٰ بی بی انکی زندگی کے اس روحانی خلا کر پورا کرنے میں کامیاب ہوں۔

Fariha Taj

0 comments: