لاہور (نظام الدولہ )نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے موجودہ نا اہلی پریہ رائے عام ہوچکی ہے کہ وہ انتہائی ضدی واقع ہوئے ہیں ،جونہی اقتدار میں آتے ہیں اپنے محسنوں سے نظریں پھیر لیتے ہیں البتہ اقتدار سے محرومی پر وہ انہی پر فریفتہ بھی ہورہے ہوتے ہیں ،تاہم انہوں نے ماضی اور حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔
سابق وزیر اعظم کے اس مزاج پر جمعیت علما اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے حال ہی میں ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ نواز شریف نوے کی دہائی میں بھی فوج سے اُلجھتے رہے اور سپریم کوٹ پر چڑھائی کردی تھی،ان کا مزاج ابھی تک بدلا نہیں اور نہ ہی انہوں نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے،سابق صدر غلام اسحق خان سے بھی اُن کا تنازعہ رہا ۔ اس حوالہ سے مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ ’’میاں نواز شریف کا غلام اسحق خان کے ساتھ بہت بڑا تنازعہ اُٹھا تھا،میں علماء کا وفد لے کر صدر پاکستان کے پاس گیا اور کہا کہ نواز شریف کو حکومت کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے اور جمہوریت کا نظام درہم برہم نہیں ہونا چاہیے۔ میں جید علماء کو لے کر گیا ہوا تھا ، اُن سب کو اسلام آباد اپنے ذاتی خرچ پر ہوٹلوں میں ٹھہرایا ۔ غلام اسحق خان سے بات شروع کی اور تین دن تک میٹنگز وہاں ہوتی رہیں ، وزیراعظم بھی اُس میں آتا تھا، میں نے سارا معاملہ بالکل ٹھیک کر دیا ،بات چیت کے دوران ایک آدھ بار ایسا موقع بھی آیا کہ دونوں روٹھ کر کھڑے ہوجاتے ، میں پھر معاملہ رفع دفع کر کے دونوں کو منالیتا اور پھر بیٹھ جاتے ۔صدر غلام اسحق خان نے میری بات مان لی، سب کچھ خوشی سے ہو گیا لیکن بعد میں فوج کے ساتھ سارا معاملہ خراب ہو گیا لیکن نواز شریف نے میرا شکریہ ادا نہ کیاالبتہ اس وقت یہ تک نہ کہا کہ ’’مولانا ! آپ کی وجہ سے معاملات ٹھیک ہوئے ،اُنہی میٹنگز کے دوران ہم ایک بار ایک ہی لفٹ کے اندر تھے، تو نواز شریف نے مجھے کہا ’’مولانا صاحب ! آپ کے اس کردار پر تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، آپ ہمارے محسن ہیں، آپ نے ملک کو بحران سے بچالیا‘‘ صاف ظاہر ہے میں نے سن کر خوش ہوا کہ چلو میری وجہ سے ملک و قوم کا بھلا ہوا،میں چاہتا بھی یہی تھا لیکن جیسے ہی اُس وقت معاملہ ٹھیک ہوا، انہوں نے میری طرف پلٹ کر نہ دیکھا ‘‘۔
سابق وزیر اعظم کے اس مزاج پر جمعیت علما اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے حال ہی میں ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ نواز شریف نوے کی دہائی میں بھی فوج سے اُلجھتے رہے اور سپریم کوٹ پر چڑھائی کردی تھی،ان کا مزاج ابھی تک بدلا نہیں اور نہ ہی انہوں نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے،سابق صدر غلام اسحق خان سے بھی اُن کا تنازعہ رہا ۔ اس حوالہ سے مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ ’’میاں نواز شریف کا غلام اسحق خان کے ساتھ بہت بڑا تنازعہ اُٹھا تھا،میں علماء کا وفد لے کر صدر پاکستان کے پاس گیا اور کہا کہ نواز شریف کو حکومت کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے اور جمہوریت کا نظام درہم برہم نہیں ہونا چاہیے۔ میں جید علماء کو لے کر گیا ہوا تھا ، اُن سب کو اسلام آباد اپنے ذاتی خرچ پر ہوٹلوں میں ٹھہرایا ۔ غلام اسحق خان سے بات شروع کی اور تین دن تک میٹنگز وہاں ہوتی رہیں ، وزیراعظم بھی اُس میں آتا تھا، میں نے سارا معاملہ بالکل ٹھیک کر دیا ،بات چیت کے دوران ایک آدھ بار ایسا موقع بھی آیا کہ دونوں روٹھ کر کھڑے ہوجاتے ، میں پھر معاملہ رفع دفع کر کے دونوں کو منالیتا اور پھر بیٹھ جاتے ۔صدر غلام اسحق خان نے میری بات مان لی، سب کچھ خوشی سے ہو گیا لیکن بعد میں فوج کے ساتھ سارا معاملہ خراب ہو گیا لیکن نواز شریف نے میرا شکریہ ادا نہ کیاالبتہ اس وقت یہ تک نہ کہا کہ ’’مولانا ! آپ کی وجہ سے معاملات ٹھیک ہوئے ،اُنہی میٹنگز کے دوران ہم ایک بار ایک ہی لفٹ کے اندر تھے، تو نواز شریف نے مجھے کہا ’’مولانا صاحب ! آپ کے اس کردار پر تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، آپ ہمارے محسن ہیں، آپ نے ملک کو بحران سے بچالیا‘‘ صاف ظاہر ہے میں نے سن کر خوش ہوا کہ چلو میری وجہ سے ملک و قوم کا بھلا ہوا،میں چاہتا بھی یہی تھا لیکن جیسے ہی اُس وقت معاملہ ٹھیک ہوا، انہوں نے میری طرف پلٹ کر نہ دیکھا ‘‘۔
0 comments: