گرل فرینڈ بنانے سے پہلے پولیس کو اطلاع دینے کا قانون نافذالعمل
لندن ۔ برطانیہ کی مقامی عدالت نے گھریلو تشدد کے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ آئندہ کوئی بھی گرل فرینڈ بنانے سے پہلے پولیس کو ضرور خبر کرے۔
اسے برطانوی عدالتی تاریخ کا سب سے عجیب و غریب لیکن انتہائی مفید فیصلہ بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس طرح قانون کے ذریعے گھریلو تشدد کا راستہ روکا جاسکے گا اور ہزاروں خواتین کی زندگی جہنم بننے سے بچ جائے گی۔
لندن کے 30 سالہ رہائشی کائل گوڈفرے کی سابقہ گرل فرینڈ نے اس کے خلاف پولیس سے شکایت کی تھی کہ وہ اس پر تشدد کرتا تھا اور گھنٹوں رسیوں سے باندھ کر رکھا کرتا تھا۔ اس شکایت پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گوڈفرے کو گرفتار کرلیا اور تفتیش کے بعد عدالت کے سامنے پیش کردیا۔
مقدمے کی کارروائی کے دوران بھی گوڈفرے نے پرتشدد رویئے کا مظاہرہ کیا اور اپنی گرل فرینڈ کے علاوہ مزید دو خواتین کو مغلظات بکیں اور ان پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اگرچہ گوڈفرے کو ضمانت پر رہائی دے دی گئی لیکن عدالت نے آئندہ 7 سال تک کے لیے اسے پابند کیا ہے کہ اگر وہ کوئی گرل فرینڈ بنائے گا یا کسی خاتون سے 2 ہفتوں تک روزانہ میل ملاقات کرے گا تو اسے یہ اطلاع لازماً مقامی پولیس کو دینا ہوگی۔
پولیس اہلکار اس خاتون/ ممکنہ گرل فرینڈ سے ملیں گے اور اسے گوڈفرے کے پرتشدد ماضی سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ محبت کے اس تعلق میں کسی بھی مار پیٹ یا تشدد کی فوری رپورٹ پولیس کو دے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اگر گوڈفرے نے اس حکم پر عمل نہ کیا تو اس کی ضمانت منسوخ کردی جائے گی اور اسے 10 سال تک جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔
برطانوی قانونی ماہرین نے اس فیصلے اور عدالتی حکم کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے بنیاد بنا کر مستقبل میں گھریلو تشدد کے واقعات پر زیادہ بہتر انداز میں قابو پایا جاسکے گا جب کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برطانیہ میں اس حوالے سے کوئی نیا اور بہتر قانون بھی منظور کرلیا جائے۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں رہنے والی بہت سی خواتین اپنی نجی اور شادی شدہ زندگی میں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن اکثر کسی خوف یا دباؤ کی بناء پر پولیس کو اس کی خبر نہیں دیتیں جب کہ بہت سے واقعات میں خواتین پر تشدد کرنے والے شوہر اور بوائے فرینڈز صرف مؤثر قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے آزاد گھومتے رہتے ہیں اور ایک کے بعد دوسری عورت کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتے رہتے ہیں:۔
0 comments: