ٓٓٓٓٓ
آ زادی ایک نعمت ہے اس کی قدر وہی قومیں جانتی ہیں جنھوں نے غلامی کے عذاب کو جھیلا ہو۔ہم اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے آزاد فضا میںآنکھ کھولی۔اس لیے ہر سال ۱۴ اگست کو ہم اپنی آزادی کا دن بڑے جو ش وخروش اور ولولے کے ساتھ مناتے ہیں۔اوراپنے بچوں کو ۱۴ اگست کی مناسبت سے لباس خرید کے دیتے ہیں،گھروں کو جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجاتے ہیں ۔ہاتھوں میں پہننے کے بینڈز سے لے کر سینوں پر سجنے والے بیجز تک اپنے بچوں کو دلاتے ہیں اور یہ خریدوفروخت کا سلسلہ یکم اگست سے شروع ہو کے ۱۴ اگست کی رات تک جاری رہتا ہے۔ہم بہت عقیدت سے یہ دن مناتے ہیں،بہت پیار اور چاہ سے گھروں میں جھنڈیاں لگاتے ہیں۔اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ جھنڈیاں ایسے لگاو،جھنڈے کو ایسے سیٹ کرو۔لیکن ۱۴ اگست کے دوسرے ہی دن سے بلکہ ذیادہ تر اُسی دن سے وہ جھنڈے اور جھنڈیاں مختلف گلیوں میں،سڑکوں پر اُڑتی اور پیروں میں آتی دکھائی دیتی ہیں۔ہم کیوں نہیں اپنے بچوں کو بتاتے کہ جس طرح شوق سے اور ضد کر کے آپ نے یہ جھنڈیاں خریدی اور سجائی ہیں اب اسی شوق اور محبت کے ساتھ اس کو سمیٹ کر اور لپیٹ کر رکھیں کیوں کہ اپنے پرچم اور جھنڈیوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ہم اپنے قیمتی لباس اور زیورات کو تو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے فارغ ہو کر بہت احتیاط سے اُتار کر رکھتے ہیں مگر ۱۴ اگست کے بعد ہم سب سے قیمتی چیزاپنے پرچم اور خاص کر اُن کاغذ کی جھنڈیوں کو کیوں سنبھال کر نہیں رکھتے،کہ جس کے لیے ہمارے آباو اجداد نے اپنے تن من اور دھن کی قربانی دی۔اگر ہم ہی اپنے جھنڈے کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی اور کیسے کرے گا؟اور کس طرح ہم آنے والی نسل کواس کی حرمت اور پاسداری کا درس دیں گے۔ہمیں بچوں کی ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ جھنڈے کی حرمت اوراور زمین پر گری ہوئی جھنڈیوں کی بے حرمتی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جس ذوق و شوق سے جھنڈیاں لگائیں اُسی شوق،جزبے اور احترام کے سا تھ اِن جھنڈے اور جھنڈیوں کو سنبھال کر رکھیں نہ کہ کچرے کے ڈھیر کی زینت بنایءں۔ایک قوم کے لیے اس سے ذیادہ شرمندگی کا مقام کیا ہوگا کہ اُن کا پرچم کچرے کے ڈھیر میں پڑا ہے۔اُسی قوم کے قدموں تلے آ رہا ہے۔Sunday, August 6, 2017
Fariha Taj rashida rasheed
0 comments: