خزینۃ الاصفیہ میں حضرت شیخ شبلیؒ کے بارے بیان کیا گیا ہے کہ آپؒ ہمیشہ اللہ اللہ کہتے ۔ ایک نوجوان درویش نے پوچھا’’ لاالہ الا اللہ کیوں نہیں کہتے‘‘
فرمایا’’ ڈرتا ہوں اگر لفظ اللہ سے پہلے نفی، لا میں مشغول رہا اور سانس منقطع ہوگئی تو مقام نفی میں رہ جاؤں گا‘‘
نوجوان درویش نے کہا ’’میں اس سے بہتر توجیہہ چاہتا ہوں‘‘
کہا’’ لا نفی غیر اللہ کے لیے ہے اور میں غیر حق کو کسی صورت نہیں چاہتا‘‘ نوجوان نے پھر سوال کیا ’’ میں اس سے اور زیادہ واضح جواب چاہتا ہوں‘‘
فرمایا’’ اللہ کہنے میں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتا ہوں جیسا کہ روایت میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ حسب حیثیت راہ خدا میں اپنا مال دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال لا کر خدمت رسولؐ میں حاضرکر دیا اور حضرت صدیق اکبرؒ نے تمام مال لا کر حضورؐؐ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آپ ؐ نے پوچھا’’ اے ابی بکرؓ اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے؟‘‘ عرض کیا’’ اللہ‘‘
اس نوجوان نے کہا’’ اے شیخ میں اس سے بھی اعلیٰ وضاحت چاہتا ہوں‘‘
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
آپؒ نے فرمایا’’ اے نوجوان میں نے بہتر سے بہتر صورتیں اور مثالیں تیرے سامنے پیش کیں لیکن تیری ہمت اور حوصلہ بہت بلند ہے۔ سن اب اس سے بہتر کہتا ہوں‘‘ توقف فرمایا پھر کہا’’اس طریق کو اختیار کرنا اور اس پر عمل کرنا جو بمبوجب حکم خداوندی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں فرمایا: اے رسول فرما دیجئے تیرے لئے بس اللہ ہی کافی ہے۔ ان سب کو اپنے لہوو لعب میں مشغول رہنے دیجئے۔ ان سے کوئی سروکار نہ رکھئے۔ پس اللہ کہنے کے لئے امر الٰہی صادر ہوگیا‘‘ نوجوان نے عرض کی’’ جزاک اللہ بس اب میرے لئے یہی کافی ہے‘‘ ایک نعرہ مارا اور واصل بحق ہوگیا۔
اس نوجوان کے وارثوں نے خلیفہ کے پاس جا کر دعوی خون کر دیا۔ خلیفہ نے حضرت شیخ شبلی ؒ کو بلایااور حقیقت حال کی وضاحت چاہی۔ شیخ نے فرمایا’’ اس کی روح مشتاق دید ہوئی ۔ رونے لگی۔ فریاد کی۔ اس طرف سے دعوت آئی۔ اس نے لبیک کہا اور جاں بحق ہوگیا۔ میرا اس میں کیا قصور ہے‘‘
خلیفہ نے کہا’’ شیخ شبلی کو یہاں سے فوراً رخصت کرو۔ اس کے کلام سے میرے دل میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ قریب ہے کہ میں بے ہوش ہو جاؤں‘‘ اس پر شیخ شبلیؒ کو مدعیان خون سے رہائی حاصل ہوئی۔
0 comments: