ئی دہلی: بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ کے ضلعے دھنباد میں واقع جھاڑیا کا شمار ملک میں کوئلے کی سب سے بڑی کانوں میں ہوتا ہے۔ اس کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ جگہ مسلسل 100سال سے دہک رہی ہے۔
جھاڑیا میں کوئلے کی کان کا بلاک لگ بھگ ایک سو مربع میل پر پھیلا ہوا ہے جہاں انیسویں صدی کے آغاز میں انگریزوں نے کوئلہ نکالنا شروع کیا تھا۔ پھر 1916 میں یہاں پہلی آگ بھڑک اٹھی اور 1980 تک 70 مختلف مقامات پر آگ لگ چکی تھی جسے اب تک نہیں بجھایا گیا ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ آگ ازخود بجھ جائے گی لیکن 1973 میں یہ امید بھی دم توڑگئی۔اس سال ریاستی کوئلہ اتھارٹی کے ذیلی ادارے بھارت کوکنگ کول لمیٹڈ (بی سی سی ایل) نے اوپن کاسٹ کان کنی شروع کی جو کوئلے کی بڑی مقدار حاصل کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ بھی ہے۔ امید تھی کہ اس طرح کوئلے سے دہکتی ہوئی آگ ختم ہوجائے گیلیکن اس کا الٹا نتیجہ نکلا۔اس سے قبل مقامی اور غیرتربیت یافتہ مزدور پہلے ہی جگہ جگہ سرنگیں کھو چکے تھے جن سے سرنگیں وجود میں آئی تھیں۔ ان سرنگوں سے سارا کوئلہ نکال لیا گیا تھا لیکن کچھ مقدار موجود تھی۔ جب کمپنی نے اوپن کاسٹ مائننگ شروع کی تو اندر ہوا نے اپنا راستہ بنالیا اور آگ مزید بھڑک اٹھی۔
اس کے بعد کوئلے کی کان سے 60 فٹ بلند شعلے بھی دیکھے گئے اور کوئلہ جل جل کر آگ ہوتا چلاگیا۔ اندازہ ہے کہ ان کانوں میں اب تک 3 کروڑ 70 لاکھ ٹن کوئلہ جل چکا ہے جس کی قیمت اربوں ڈالر ہے۔ جبکہ نیچے موجود قریبا ڈیڑھ ارب ٹن کوئلہ پہنچ سے دور ہوگیا کیونکہ اوپر آگ کا راج ہے۔ اب بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی اور موجودہ حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے صرف اس سے کوئلہ نکالنے پر اکتفا کیا ہے اور وہ آگ بجھانے کی بجائے کوئلہ نکالنے کے لیے بے چین ہیں۔
جھاڑیا کے قریبی گاؤں بھلن بریری میں رہنے والے لوگ اس علاقے کو جہنم کہتے ہیں۔ مقامی باشندے محمد نسیم انصاری نے بتایا کہ ’ زمین اتنی گرم رہتی ہے کہ جوتوں کے ساتھ وہاں چلنا ناممکن ہوتا ہے۔ اکثرافراد یہاں بیمار ہوچکے ہیں لیکن وہ روزگار اور کھیتی باڑی کی وجہ سے اس علاقے میں رہنے پر مجبور ہیں،‘۔
مسلسل آگ سے زہریلے ذرات اور مضر گیسیں نکل رہی ہیں جو علاقے کے لوگوں کی صحت برباد کررہی ہیں۔ یہاں آنے والے ایسٹ جارجیا اسٹیٹ کالج کے ارضیات داں گلین اسٹریچر نے بتایا کہ مختلف مقامات پر ہائیڈروکاربنز کے 40 سے 50 مختلف مرکبات ملے ہیں ۔ ان کی اکثریت زہریلی ہے اور کینسر کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔
مٹی ڈالنے اور مختلف گیسوں سے آگ بجھانے کی جو کوشش کی گئی وہ اب تک ناکام رہی ہے۔
0 comments: