Friday, October 14, 2016

کیا فرق پڑتا ہے اگر میں 32 سال کی ہوں اور کنواری ہوں؟

ہم ایسے وقت میں زندہ ہیں جہاں کچھ لوگ مل کر اس چیز کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کس عمر میں ہمیں کیا ہونا چاہیے۔سب سےزیادہ ضروری تو یہ ہے کہ
صحیح وقت‘‘ پر ہماری شادی ہو جائے۔اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون سا ٹائم ٹھیک ہے؟زیادہ تر تو اس کا فیصلہ ہمارا معاشرہ، ہمارے رشتے دار، ہمارے دوست یا قریبی فیملی کے لوگ ہمی اس بارے میں اپنی آراء سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔اگر اُس موزوں عمر پر پہنچ چکے ہیں تو ہر فیملی تقریب میں آپ کو کبھی چٹکی بھر کر، کبھی کہنی مار کر کبھی تھپ تھپا کر یہ بات بتائی جاتی ہے، سمجھائی جاتی ہے بلکہ گھول کر پلائی جاتی ہے کہ بھئی اب یہ چھلانگ لگا ہی لو۔آپ کی مرضی، آپکی رائے یہاں تک کہ آپ کا جنسی رجہان بھی اس صورت میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔جنسی رجہان۔۔۔ یعنی ہمارے معاشرے میں تو یہ ضروری ہی مانا جاتا ہے کہ آپ’’ straight‘‘ ہوں۔ کسی اور رجہان کا تو آپ سوچ ہی نہیں سکتے کیونکہ ہمارا معاشرہ اس کو نہیں مانتا اور اگر آپ کا کوئی ایسا رجہان ہے بھی تو آپ کو اسے راز ہی رکھنا پڑے گا۔ یاد رکھیے یہ بلّی کبھی تھیلے سے باہر نا آنے پائے۔بلکہ ہمارے معاشرے کی اقدار رو ایات کے مطابق تو ہمیں اس بارے میں بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔
اگر آپ نے ایک راہ کا تعین کرنا ہے اور پھر اس پر اپنی زندگی کے ایک لمبے عرصے تک چلناہے تو پھر اس کا انتخاب آپ سوچ سمجھ کر ہی کریں گے نا۔یا شائد آپ اسلیے شادی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ آپ کے آس پاس کے لوگوں میں کسی کے ساتھ شادی کا کچھ انجام نہیں ہوا یاشائد اسلیے کہ ابھی آپ اس فیصلے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہونا چاہیے ناکہ پورے خاندان کا مسئلہ۔ کسی بہن، بیٹی یا دوست کے لیے فکر مند ہونا کوئی بری بات نہیں مگر فکر مند ہونے اور ٹوہ لگانے کے درمیان فرق ہوتا ہے اور شادی کے معاملے میں تو ہمیں ایک منٹ لگتا ہے کہ حد پھلانگنے میں۔میں ایک دفعہ اپنی ایک جاننے والی خاتون کے ساتھ ہسپتال گئی۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود محترمہ نے میری سہیلی سے اُن کی عمر پوچھی تو میری سہیلی نے بتائی32۔ چھوٹتے ہی اُن محترمہ نے میری سہیلی سے اُن کے میاں کا نا پوچھا جیسے یہ تو کنفرم بات ہے کہ اگر عورت کی عمر32سال ہے تو وہ ضرور شادی شدہ ہو گی۔لیکن ابھی بھی کچھ عورتیں جو اس بات پر یقین نہیں رکھتیں۔
کسی کو بھی اسلیے شادی نہیں کرنی چاہیے کہ اُس پر دباؤ ہے یا اسلیے کہ آپ اب بیس کی حد سے نکل گئے ہیں یا سلیے کہ شائد بعد میں آپ کو صحیح بندہ نا ملے۔ بلکہ اسلیے کر نی چاہیے کہ آپ کرنا چاہتے ہیں۔ شادی دو لوگوں کے درمیان ایک خوبصورت اور مقدس رشتے کا نام ہے۔ یہ زندگی بھر کا رشتہ ہے جس کو بنانے کی آپ اپنی وجوہات ہونی چاہیئیں۔ یہ رشتہ ایک گراف جیسا ہوتا ہے کبھی اوپر تو کبھی نیچے۔ہمارے معاشرے میں اس رشتے کی بنیاد ہوتی ہے محبت اور عزت کیونکہ یہ ایک زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے اسی لیے کسی جلدبازی میں یہ فیصلہ لینا غلط بھی ہو سکتا ہے۔
زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر انسان کو ساتھی کی طلب محسوس ہوتی ہے۔لیکن میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جنہوں نے ایک ساتھ لمبا عرصہ گزارا ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ کوئی کمی محسوس کرتے ہیں۔ایسے رشتے مجبوری یا بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔شادی اسلیے نہیں ہونی چاہیے کہ اس نے ہونا ہی ہے اور ایسی کوئی روایت یا اصول نہیں جو یہ بتاتا ہو کہ27سے اوپر ہو اسلیے شادی ہو جانی چاہیے۔
آج کی عورت ایک آزاد عورت ہے اور اُس کو اپنی پسند کا ساتھی چننے کی پوری آزادی ہے۔ ہر ،مذہب میں شادی کو دو روحوں کا ملن کہا جاتا ہے اس کو کسی بھی طرح سے مجبوری یا پاؤں کی بیڑی نہیں بنانا چاہئیے۔آپ کا شادی شدہ یا کنوارا ہونا آپ کی ذات کی تعریف نہیں بلکہ آپ کے وجود کا سنگھار ہے۔کسی کو اتنا حق نا دیں کہ ووہ آپ کو تنقید کا نشانہ بنائے یا آپ کے کردار پہ صرف اسلیے کیچڑ اُچھالے کہ آپ اپنی زندگی کسی ساتھی کے بغیر گزارنا چاہتیں ہیں۔ مت بھولیں کہ آپ خدا کی سب سے بہادر مخلوق ہیں جس کے سر ایک انسانی جان کو دنیا میں لانے کا سہرا ہے۔
لوگ تو بات کریں گے کیونکہ یہی اُن کاکام ہے۔ صرف لوگوں کی باتوں کی وجہ سے اپنی انفرادی سوچ سے منہ نا موڑیں۔کییونکہ شادی ہو جائے گی تو لوگ بچون کے بارے میں بات کرنے لگیں گے اور چل سو چل یہ قصّہ تو چلتا ہی رہے گا۔ہو سکتا ہے کہ کبھی اس نکتی چینی یا لوگون کی آراء یا طنز سے آپ کا دل بہت دُکھے لیکن اپنے آپ کو دوسروں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نا بننے دیں۔
شادی ہو یا نا ہو اپنی زندگی مزے سے گزاریں۔ 

Fariha Taj

0 comments: