اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ملکی سیاست کے فسادی بابا ہیں ، وہ ماچس لے کر اس تاک میں رہتے ہیں کہ مجھے پٹرول نظر آئے اور آگ لگاﺅں ، خان صاحب66سال کے ہو کر بھی سیاسی طور پر نا بالغ ہیں ، وہ پہلے روز سے ہی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چا رہے ہیں ، سربراہ پی ٹی آئی حکومت کو نہیں بلکہ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، پانامہ کے ذریعے ملکی ترقی کو روکا گیا ، خان صاحب جب سے الیکشن ہارے ہیں بس روئے جار ہے ہیں ، انہیں عوام نے منتخب نہیں کیا توا س میں ہمارا کیا قصور ہے ، عمران خان ٹائپ کے لوگ شیخ چلی جیسے خواب دیکھتے ہیں، اگر پاکستان کے لوگوں نے آپ کی اپیل پر شہر بند نہیں کئے تو ہم کیا کریں ، وہ سیاسی طور پر بالغ ہوجائیں اور ملک کی ترقی کے لئے کردار ادا کریں ۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے ذریعے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے ان پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے فیض آباد دھرنے کے خاتمے پر 2نوافل پڑھے جبکہ ہم نے پی ٹی آئی کا دھرنا ختم ہونے پر 100نوافل پڑھے، عمران خان انتخابی اصلاحات بل پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں مگر تحریک انصاف الیکشن ایکٹ کے تمام عمل کاحصہ تھی اور پارٹی کے4ارکان کمیٹی میں شامل تھے۔ خان صاحب کے سیاسی استاد شیخ رشید بھی انتخابی اصلاحات بل تیار کرنے والی کمیٹی کا حصہ تھے۔جب قانون بنا تو اس وقت تمام ارکان نے اپنی اپنی رائے دی جبکہ اس وقت تحریک انصاف کی جانب سے بل پر کسی بھی قسم کا اعتراض نہیں کیا اور کمیٹی کے تیار کردہ مسودے سے تحریک انصاف بالکل مطمئن تھی، عمران خان اس وقت قوم کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں ، قوم عمران خان کی باتوں میں نہیں آئے گی۔
احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں اگر سیاسی استحکام رہتا تو ہم 6فیصد سالانہ سے ترقی کرنے کے قابل ہو جاتے، پاکستان کی ترقی کا سفر جتنی تیزی سے جاری ہے اس کے دشمن اتنی ہی تیزی سے اس کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں انہوں نے ہمارے استحکام و امن کو نشانہ بنایا، ترقی کی پہلی سیڑھی امن ہوتا ہے اور اگر امن نہیں ہوگا تو نوبل انعام یافتہ افراد بھی ترقی کے سفر کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ عمران خان ملک سے کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں انہوں نے چیئرمین نیب کے لئے بہت اچھے نام دئیے میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ ان افراد میں سے کسی کو خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کا سربراہ کیوں نہیں لگا دیتے۔
0 comments: