Wednesday, November 15, 2017

سیاچن پر تعینات پاک فوج کے کپتان کا خط، اس میں کیا لکھا ہے؟ جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک) موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی ہم خود کو گرم کپڑوں میں لپیٹ کر اپنے لئے راحت کا اہتمام کرنے لگتے ہیں۔ سردی کے موسم میں ہم اپنے دن کا بیش تر حصہ گرم کمروں میں اور رات گرم لحاف میں گزارتے ہیں۔ یہ وطن عزیز کے ان علاقوں کی بات ہو رہی ہے جن میں سے اکثر کا درجہ حرارت شاید ہی کبھی نقطہ انجماد سے نیچے گیا ہو۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم اپنے گھر میں پرآسائش زندگی کی حرارت سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں کوئی سیاچن کے برف زار میں خون جما دینے والی سردی کا مقابلہ کر رہا ہوتاہے، ہمارے لئے! جی ہاں، صرف ہمارے لئے تا کہ یہ وطن محفوظ رہے اور اس کے لوگ مکمل احساس تحفظ کے ساتھ چین کی نیند سو سکیں۔ ہماری سلامتی اور آرام و سکون کے لئے اپناآرام و سکون، اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی قربان کر دینے والے قوم کے ان بہادر بیٹوں کے شب و روز دنیا کے بلند ترین محاذ پر کیسے گزرتے ہیں، اس کی ایک جھلک آپ سیاچن کے محاذ پر مادر وطن کی حفاظت کا پاکیزہ فریضہ سرانجام دینے والے ایک نوجوان کپتان کے خط سے بخوبی کر سکتے ہیں۔ ویب سائٹ پڑھ لو کے مطابق اس خط میں وطن کی محبت سے سرشار پاک فوج کا یہ کپتان کچھ یوں رقمطراز ہے:
یہ جنوری کی بات ہے کہ میں ایک جگہ ڈیوٹی پر تعینات تھا اور ساری رات جاگتا رہا تھا۔ ڈیوٹی سے واپس آکر میں سو گیا لیکن صبح سوا 10 بجے ہی میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میرا ایک دوست مجھے یہ خبر دے رہا تھا ”کیا تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری تعیناتی سیاچن میں کردی گئی ہے؟ پاس آﺅٹ ہونے کے بعد تین سال تک راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران تم نے خوب مزے کرلئے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام اعضاءسلامت لے کر واپس آﺅ۔“
میں سوچ رہا تھا کہ لاہور میں ایک ڈگری درجہ حرارت مشکل کا باعث بن جاتا ہے تو سیاچن میں منفی 50 ڈگری میں کیسے گزارا ہوگا۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اور وہاں کمیونیکیشن نہ ہونے کی وجہ سے گھر کے معاملات کی دیکھ بھال کیسے کروں گا۔ مزید یہ کہ جو بھی میری سیاچن میں تعیناتی کا سن رہا تھا اس پر پریشانی کا اظہار کررہا تھا۔
خوش قسمتی سے مجھے ایک ماہ کی چھٹی دی گئی اور میں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ خوب جی بھر کر وقت گزارا، منگنی کروائی اور دل کھول کر کھایا پیا، جس کے بعد میں مشکل ترین تعیناتی کے لئے روانہ ہوگیا۔ سکردو میں میرا میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا اور مجھے کلیئر قرار دیا گیا، یعنی اب میں دنیا کے بلند ترین محاذ پر بھیجے جانے کے لئے تیار تھا۔
میں متفکر تھا کہ ایسی جگہ پر کیسے فرائض سرانجام دوں گا لیکن پھر میں نے سوچا کہ وہاں تعینات میرے بھائی بھی تو اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں اور وطن کی خدمت کررہے ہیں۔ وہ واحد چیز جو ان کا حوصلہ بلند رکھتی ہے ان کی رگوں میں دوڑنے والا بہادر اور گرم خون ہے، اور وہ توقعات جو قوم ان سے رکھتی ہے۔
سکردو سے میں نے اپنے 9جوانوں کی پارٹی کے ساتھ 21 دن کا سفر شروع کیا جس کے دوران ہمیں 11 چوکیوں، برف سے ڈھکے گلیشیئروں اور خطرناک گہری کھائیوں سے گزرنا تھا۔ ہمارا یہ سفر مسلسل جاری رہا جس کے دوران رات کے وقت راستے میں پڑنے والی چوکی پر رکتے تھے۔ سکردو کی سطح سمندر سے بلندی 14500 فٹ ہے جبکہ ہماری منزل 22000 فٹ کی بلندی پر واقع تھی۔ اکیسویں روز ہم آخری چوکی سے پہلی چوکی پر پہنچے اور اب ہماری بلندی تقریباً K2 کے برابر تھی ۔ وہاں ہم نے تقریباً 45روز قیام کیا اور پھر آخری چوکی کی جانب روانہ ہوگئے۔
آخری چوکی تک پہنچنے کا سفر مشکل ترین تھا۔ آکسیجن کی شدید کمی اور شدید ترین سردی کے باعث اعضاءمنجمد ہونے کے خطرے نے اسے مزید مشکل اور خطرناک بنادیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے کامیابی سے یہ سفر بھی مکمل کیا۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ یہاں تک پہنچنا سب سے مشکل کام نہیں تھا بلکہ اصل پارٹی تو اب شروع ہوئی تھی۔
یہاں ہر دن ایک نیا چیلنج تھا۔ آکسیجن کی شدید کمی سے سانس لینا اور آرام کرنا دشوار تھا۔ انہظام کا عمل اتنا سست پڑجاتا ہے کہ کھانا پینا مشکل ہوجاتا ہے۔ سینے اور سرکا درد عام پائی جانے والی کیفیت ہے اور ادویات کا اثر بھی بہت کم ہوتا ہے۔ آٹھ گلاس برف پگھلا کر پینے سے بھی پیاس نہیں بجھتی اور خاص لباس نہ پہننے کی غلطی کا نتیجہ فوری طور پر اعضاءکے منجمد ہوجانے کی صورت میں نکلتا ہے۔
سیاچن میں ہم اگلو (برفانی علاقوں میں استعمال ہونے والا خصوصی خیمہ) کے اندر رہتے تھے، جس کے اندر بھی قیام کچھ خاص آرام دہ نہیں ہوتا۔ اس کے اندر نماز کی ادائیگی بھی بیٹھ کر کرنا پڑتی تھی کیونکہ اس پیالہ نما چیز کی بلندی بہت کم تھی۔ ایک اگلو میں بمشکل اتنی جگہ ہوتی ہے کہ اس میں پانچ سپاہی سما سکیں۔کئی کئی روز تک برف کے طوفان چلتے رہتے ہیں اور آپ کے پاس اگلو کے اندر رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
یہاں آنے سے پہلے میرے ذہن میںجو سوالات تھے ان سب کے جوابات بھی اب مجھے ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اب میں خود کو خوش قسمت محسوس کرنے لگا تھا کہ خدا نے مجھے ایک ایسی خدمت کیلئے چنا جس پر میں فخر کرسکتا تھا۔ میرے دل میں میرے اپنے ادارے پاک آرمی کی عزت بھی بے پناہ بڑھ گئی تھی، کہ اس کے جوان کس طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر وطن کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ اب مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے اندر اتنا حوصلہ اور ہمت کہاں سے آتی ہے، یقینا یہ وہ بے شمار دعائیں ہیں جو پاکستانی قوم ہمارے لئے کرتی ہے۔
سلام ہے پاکستان آرمی کی قربانیوں کو، جو ان تمام مصائب اور مشکلات کے باوجود وطن اور قوم کی خدمت پر پورے جذبے کے ساتھ مامور ہے۔ خدا نے ہمیں یہ ذمہ داریاں نبھانے کا اعزاز بخشا ہے۔ کوئی مشکل ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی اور کوئی رکاوٹ ہمارا حوصلہ پست نہیں کر سکتی۔ پاکستان آرمی زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد!

Fariha Taj

0 comments: